Monday, June 16, 2025

محمد خانڈھرنال

{(محمد خان مرحوم ڈھرنال)تحصیل و ڈسٹرکٹ تلہ گنگ } ڈاکو یا مسیحا علاقے کے ایک مشہور و معروف کردار کی کہانی)*******👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻 وادی سون اور محمد خان محمد خان اور اس کا بھائی ہاشم خان وادی سون کے پہاڑوں کو اپنا گھر بنا چکے تھے ۔ پولیس ان کی گرفتاری کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے تھی لیکن وہ پولیس کے لئے چلاوہ بن چکے تھے۔ کئی مرتبہ پہاڑوں پر پولیس نے ریڈ کیا کئی مرتبہ ان کے قریب سے پولیس گزر گئی لیکن وہ پولیس کے ہتھے نہ چڑھ سکے۔ پولیس کو آرڈر تھا کہ زندہ یا مردہ ان دونوں بھائیوں کو گرفتار کیا جائے۔ اس دوران آس پاس کے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جس سے پولیس نے یہ تاثر دیا کہ یہ وارداتیں محمد خان خود کرتا ہے یا اپنے بندوں سے کرواتا ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا وہ روپوش ضرور تھا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پیر مکھڈ شریف اور دوسرے بااثر اشخاص پولیس کے ہاتھوں اسے مروا دینا چاہتے تھے اگر اسے پولیس کے اس ارادے کا علم نہ ہوتا تو یقیناً عدالت میں حاضر ہو جاتا ہر شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے وہ فوج سے گھر چھٹی آیا تھا تو ملک لال خان نے ڈاکے اور قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا پھر گھیر کر اسے ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی بااثر افراد کی وجہ سے مولابخش اور اس کے آدمی مقدمات میں ایک بار بھی کڑی سزا نہیں پا سکے‘ پھر محمد خان کے گھر کا محاصرہ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے مسلح افراد نے دھاوا بول دیا مگر مقدمات بھی محمد خان اور اس کے خاندان پر قائم ہوئے مخالف فریق صاف بری ہو گیا یہ واقعات اس کے ذہن میں پتھر پر لکیر کی طرح نقش تھے ان بے انصافیوں نے اسے ایک نیا ذہن نئی سوچ اور الگ تھلگ کردار کا مالک بنا دیاتھا وہ ظالم سفاک قاتل اور لٹیرا نہیں تھا وہ تو اپنی جان بچانے کیلئے پہاڑوں کی وادی میں تنہائی کے مظالم سہہ رہا تھا اگرچہ اس کا والد وفات پا چکا تھا تا ہم گھر میں بھائی فتح شیر ایک بوڑھی ماں اور بہن موجود تھی اسکا دھیان ہر وقت ان کی جانب رہتا تھا وہ کئی مرتبہ پولیس کا گھیرا توڑ کر گھر آیا اور بہت دیر تک گھر رہ کر پھر روپوش ہو جاتا پولیس یہ خیال کر رہی تھی کہ اس نے ڈاکوﺅں‘ چوروں اور قاتلوں کا ایک گروہ تیار کر رکھا ہے جو ہینڈ گرنیڈوں‘ آتشیں اسلحہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہے یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ اسکے قریب ہوتے ہوئے پولیس نے گولی نہیں چلائی۔وادی سون میں محمد خان کے ساتھیوں‘ عزیز رشتہ داروں اور بعض پولیس والوں کا تعاون بھی اسے حاصل رہا۔ بہت سے مقامی اعوان اس کے دوست بن چکے تھے وہ اسے خطرات سے آگاہ کر دیتے اور حالات سے پوری طرح باخبر رکھا کرتے یہی وجہ تھی کہ وہ پولیس کارروائی سے قبل ہی حفاظتی انتظامات کر لیا کرتا تھا۔ اس دوران اس کے دوستوں نے محمد خان کو بچانے کیلئے یہ مشہور کر دیا کہ وہ ایک خونی لٹیرا بن گیا ہے۔ اس نے پہاڑوں میں ایک بنک قائم کر رکھا تھا اس کے ہزاروں ساتھی وادی سون میں گھومتے رہتے اور وہ لوگوں کو پکڑ کر قتل کر دیا کرتا تھا اس کے خفیہ اڈے قائم تھے یہ تاثر بالکل غلط ہے‘ وہ فلمی ڈاکووں کی طرح پہاڑ میں سردار نہیں بنا بیٹھا تھا‘ اسکے پاس اسلحہ تھا ‘ حفاظت خود اختیاری کا پورا سامان تھا اسے لمحہ لمحہ کی خبر رہتی تھی لیکن اس نے ڈاکووں کا کوئی گینگ تیار نہیں کیا ہوا تھا بلکہ اس نے اس علاقہ میں امن و امان بحال کرنے کی پوری کوشش کی تھی ہو سکتا ہے بعض اوچھے لوگ اس کا نام استعمال کر کے وارداتیں کرتے ہوں اگر کبھی کوئی ایسا واقعہ اس کے علم میں لایا گیا تو اس نے سختی سے اس کا نوٹس لیا‘ اسے تو ہر وقت اپنے بھائی ہاشم خان کی فکر لگی رہتی وہ درد گردہ کا پرانا مریض تھا۔ ابھی رن باز خان کو قتل ہوئے چار ماہ کا وقت ہی گزرا تھا کہ ہاشم خان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اس کے پاس دوائیاں موجود تھیں لیکن ان سے آرام نہیں آیا۔ کسی ہسپتال میں وہ بھائی کو لے کر نہیں جا سکتا تھا۔ بالآخر اسی رات محمد خان کی جھولی میں ہاشم خان کا دم نکل گیا۔ صبح ہوئی تو اس نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ ہاشم خان کی تدفین کا بندوبست کرنے کیلئے اس کی لاش کو اس کے دیرینہ دوست محمد خضر حیات کے ڈیرے پر پہنچا دیں ۔ یہ لاش وہ اس لئے بھجوا رہا تھا کہ معززین کی نگرانی میں اس کے بھائی کی لاش کو سپرد خاک کیا جا سکے۔ پولیس کو اس کی اطلاع ہوئی پولیس نے راستے میں ہی ساتھیوں سے اس کے بھائی کی لاش چھین لی اور لاش پر گولیاں برسا کر پولیس مقابلہ کی کہانی گھڑ لی‘ اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ ڈاکو محمد خان کا بھائی ہاشم خان پولیس مقابلہ میں مارا گیا‘ محمدخان کو اس کا بے حد دکھ ہوا وہ تو روپوش تھا اس وقت کیا کر سکتا تھا پولیس خود اس کی تاک میں تھی‘ لیکن اب محمد خان نے حکمت عملی تبدیل کرلی۔۔ اس نے اپنا مسلح گروہ بنا لیا۔۔ اس کے ارد گرد رضا کار لوگ اکھٹا ہو گئے۔۔ روپوشی کے دوران وہ وادی سون ، تھوہا محرم خان، چینجی کوٹیڑہ اور بھلومار کے غریب لوگوں کی بے انتہاء مدد کیا کرتا تھا۔۔ اس بنا پر غریب لوگ اسے مسیحا ماننے تھے۔۔ جب وہ طاقت اختیار کر گیا تو ہاشم کی وفات کے ٹھیک پانچ ماہ بعد اس نے روپوشی کی زندگی ترک کرتے ہوئے پولیس تھانہ ٹمن میں واقعہ ڈھوک مصائب میں مستقل رہائش اختیار کر لی ۔ ڈھوک مصائب تلہ گنگ میانوانی روڈ پر بڈھر ونہار سے تھوڑا پہلے دائیں جانب ہے۔ اب مخالفین نے جب اس کے ساتھ رضا کاروں کی فوج دیکھی تو وہ بھی خوفزدہ ہو گئے ہزاروں کی تعداد میں رضا کار ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے۔ اب مولا بخش پارٹی کو جان کے لالے پڑ چکے تھے وہ بھی محمد خان سے راضی نامہ کے لئے کوشاں تھے۔ اس دوران محمد خان نے ملک امیر محمد خان کالا باغ(گورنر مغربی پاکستان) کا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے انتظامیہ میں بھی اپنی جان پہچان بنا لی۔ قتل کے مقدمے بدستور اس کے خلاف قائم تھے پولیس اس کو تلاش بھی کر رہی تھی لیکن اس کے حالات بدل چکے تھے ۔ پولیس جہاں چھاپہ مارتی مقامی لوگ ڈنڈے لیکر پولیس کو بھگا دیتے۔ بلکہ اب تو اس کے نام کا اتنا ڈنکا بج چکا تھا کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اس سے دوستی کے خواہاں تھے۔ جب محمد خان نے ڈھوک مصائب پر ڈیرہ لگایا تو اس کی دہشت کے سائے وادی سون سے نکل کر تحصیل چکوال‘ تحصیل پنڈی گھیب اور نواحی علاقوں تک پھیل گئے تھے‘ اس نے اس جگہ آتے ہی تمام گھر والوں کو بھی بلا لیا‘ اس کا مخالف فریق چل کر اس کے پاس آگیا‘ اس نے اس سے صلح کر لی اب محمد خان کا وہ دور شروع ہوتا ہے اس کی الگ ریاست قائم کرنے سے تشبیہ دی جاتی ہے‘ محمد خان نے جس طرح قانون و انصاف کا خون ہوتے ہوئے دیکھا انسانیت کی توہین اپنی آنکھوں سے دیکھی اس کے ساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا گیا اس نے نفسیاتی رد عمل کے طور پر اسے ایک ایسا نظام قائم کرنے کی تحریک دی جس میں کمزور اور طاقتور برابر ہو سکیں جہاں رشوت ، سفارش اور ٹیلی فونوں پر انسانی قسمت کے فیصلے نہ ہوں‘ ظالم کو کڑی سزا ملے اور مظلوم کو اس کا حق دلا سکے ۔ محمد خان کی شخصیت کا رعب دبدبہ تھا کہ پورے ضلع میں پولیس کے ڈی ایس پی سے لے کر اک سپاہی تک اس کی اجازت کے بغیر گاﺅں میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ اپنے ڈیرے سے دور دور تک اس نے چیک پوسٹیں بنا رکھیں تھیں جن میں چڑیا کا بچہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔ ۔۔ اور پھرمحمد خان نے اپنی ریاست قائم کرلی ۔۔۔ جب محمد خان نے اپنے گرد حصار مستحکم کرلیا ۔ پولیس اورانتظامیہ کو اپنا ہم نوا بنا لیا تو لوگ اس کو مسیحا ماننے لگے۔ لوگ پولیس کے پاس جانے کی بجائے اپنے مسائل اورمقدمات کے حل کیلئے محمد خان سے رجوع کرنے لگے۔ وہ زیادہ پڑھا ہوا نہیں تھا لیکن تجربے نے بہت کچھ سکھایا تھا اس نے اپنی الگ عدالتیں لگانا شروع کر دیں وہ لوگ جو جان کے دشمن تھے اس کے خوف سے لرزنے لگے پولیس آفیسر‘ تحصیل دار‘ دوسرے محکموں کے سربراہ اس کے پاس آیا کرتے اور پاس بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے ہیں۔ محمد خان ان عدالتوں کا سربراہ اعلیٰ ہوا کرتا تھا۔ اس کے پاس سینکڑوں سپاہی ہوا کرتے جنہیں وہ خود بھرتی کیا کرتا انہیں باقاعدہ تنخواہ دی جاتی تھی۔ ہزاروں رضا کار تھے۔ باقاعدہ مقدمات کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا سب کاروائی عام عدالتوں کی طرح لکھی جاتی۔ شہادتیں لی جاتیں مقدمات کی انکوائری کی جاتی وارنٹ جاری کئے جاتے اور محمد خان نے اپنے مسلح سپاہی ملزموں کو پکڑ کر لایا کرتے تھے۔ محرر تمام کارروائی نوٹ کرتا اس کے ساتھ علمائے کرام بیٹھا کرتے تھے تمام مقدمہ کی کاروائی سننے کے بعد وہ قرآن و سنت کی روشنی میں جو فیصلہ دیا کرتے ہیں وہ ان پر دستخط کر کے اور اپنے سامنے عمل درآمد کرایا کرتا تھا۔ سپاہیوں کے پاس اسلحہ ہوا کرتا تھا اگر کوئی شخص محمد خان کی عدالت کا حکم ماننے سے انکار کر دیتا تو طاقت کے ذریعے اس پر عمل کرایا جاتا جب اس کی عدالتیں لگا کرتی تھی تو ارد گرد کے تھانے اجڑ گئے، تحصیلیں سونی ہو گئی تھیں اور دوسرے انصاف مہیا کرنے والے ادارے بالکل ویران ہو گئے‘ چار سال تک متذکرہ علاقوں پر اسکا مکمل کنٹرول رہا۔ وادی سون ‘ تحصیل چکوال ‘ تحصیل پنڈی گھیب اور تلہ گنگ کے علاقوں میں اس کا سکہ جاری تھا۔ اس کی اجازت کے بغیر ان علاقوں پر مشتمل ریاست میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔ ان علاقوں کی انتظامیہ بالکل بے کار ہو کر رہ گئی تھی یہ درست ہے کہ وہ 1963ء سے 1966 تک اپنی ریاست کا بے تاج باد شاہ تھا اس کی عدالتوں میں 302 کے علاوہ ہر قسم کے مقدمات پیش ہوا کرتے تھے ۔ اس دوران 1964ءکے صدارتی انتخابات آ گئے۔ محمد خان کی اتنی طاقت تھی کہ وادی سون، تحصیل تلہ گنگ اور پنڈی گھیب کے تمام بی ڈی ممبروں اور چیئرمینوں کے ووٹ صدر ایوب خان کو دلوائے تھے‘ 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان سے جنگ شروع کی تو اس نے جنرل محمد موسیٰ اور صدر ایوب خان کو تار دی کہ اسے پانچ ہزار مجاہدین کو لے کر محاذ جنگ پر جانے کی اجازت دی جائے اسے اس تار کا جواب آیاکہ ابھی انتظار کرو بعد میں جنگ بندی کے باعث اس کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔ اس دوران اس کا اثرو رسوخ پورے علاقے میں مشہور ہوچکا تھا۔ پولیس بھی اس کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرتی تھی۔ لیکن اس وقت کے تمام لوگ شاہد ہیں کہ اس نے اتنی طاقت پکڑنے کے باوجود اپنے مخالفین کو تنگ نہ کیا۔ پورے علاقے میں مشہور زمانہ امن و امان قائم کیا۔ کسی بندے کو تنگ نہ کیا۔ کوئی چوری یا ڈاکہ نہیں ڈالا۔ ہاں جو کیس اس کی عدالت میں لائے جاتے ان سے واجبی جیب خرچ لیا جاتا جرمانہ کی صورت میں اصل رقم مالک کو واپس کر دی جاتی تھی اور اس میں سے صرف 30 روپے رکھے جاتے تھے تاکہ اہلکاروں کی تنخواہیں ادا ہو سکیں۔ اس دوران سارا سارا دن وہ کچہری لگائے رکھتا اورلوگوں کے فیصلے کرتا رہتا۔ حتی ٰ کہ بعض اوقات رات بھی ہو جاتی۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جب کوئی طاقت پکڑتا ہے تو لوگ اس کے گرد اکھٹا ہو جاتے ہیں۔ بعد ازاں اس نے یہ عدالتیں مختلف علاقوں میں سرکاری ریسٹ ہاﺅسوں میں لگانی شروع کر دیں۔ وہ ہفتہ وار پروگرام ترتیب دیتا اس کے اہلکار ہر علاقے کی مساجد میں اعلان کراتے ہیں کہ محمد خان فلاں دن فلاں جگہ کچہری لگائے گا۔ اس کے اہلکاروں کے پاس بے پناہ اسلحہ تھا لیکن سارے اسلحہ کے اس نے لائسنس بنوا رکھے تھے۔ ہزاروں اہلکار اس کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ حکومت اور افسران بھی اس بات سے آگاہ تھے۔ اس کی عدالتوں اور الگ ریاست کے قیام سے حکومت بھی لاعلم نہیں تھی۔ اس وقت اس کے پاس ایک نئی گاڑی بھی تھی اور کچھ گھوڑے تھے۔ اسکی عدالتوں کا نظام ٹھیک ٹھاک انداز سے چل رہاتھا چار سال کے طویل عرصہ میں اس کی ریاست سے رشوت کامکمل خاتمہ ہو گیا تھا۔ امیر کبیر لوگ خود اس کی خدمت کر جاتے اس لئے اس کی ریاست اور عدالتیں کبھی مالی بحران سے دوچار نہیں ہوئیں ۔ اس کی عدالت کے قاضی کا نام عبدالرحمٰن تھا ۔ جو بڑی عرق ریزی اور اسلام کی روشنی میں اپنے جونیئر قاضیوں کے مشورے سے مقدمات کا فیصلہ کیا کرتا تھا۔ وقت نے اچانک انگڑائی لی ملک امیر محمد خان اور صدر ایوب خان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گئے ملک امیر محمد خان نے گورنری سے استعفیٰ دے دیا‘ محمد خان کے مخالف عناصر نے صدر ایوب کو اس کے خلاف بھڑکا دیا اور حکومت کی پوری مشینری اس کے خلاف دوبارہ حرکت میں آ گئی یہاں سے محمد خان کی کہانی ایک نیا رخ اختیار کر گئی۔ وہی درباری افسران جو کل تک اسے جھک کر سلام کرتے تھے اس کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ صدر ایوب خان تک بات پہنچائی گئی کہ محمد خان اسے ملک امیر محمد خان کی ایما پر قتل کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ جب محمد خان نے وقت کا تیور دیکھا تو سب کچھ سمیٹ کر روپوش ہو گیا۔ یہ اگست 1966ءکی بات ہے۔ ۔۔ صدر ایوب خان نے آئی جی پولیس کو محمد خان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔ لیکن محمد خان وقت کے تیور دیکھ کر پہلے ہی اپنے سپاہیوں کا حساب بے باق کر کے ملتان جا کر روپوش ہو چکا تھا۔ ابھی اسے ملتان آئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ ملک امیر محمد خان اور محمد خان کے مخالف پولیس افسران کو حکم دیا گیا جس طرح بھی ہو محمد خان کو تلاش کر کے گولی سے اڑا دیا جائے۔ اسے بھی اس حکم کا علم ہو گیا وہ اپنی جان بچانے کیلئے بہاولپور چلا گیا اور بال بچوں کو سرگودہا میں ایک رشتہ دار کے ہاں بھیج دیا پولیس کی بھاری نفری اس کی گرفتاری کیلئے تعینات کر دی گئی تھی حتیٰ کہ سپیشل دستے تعینات کر دیئے گئے اب وہ باقاعدہ روپوش ہو گیا اسے خطرہ تھا کہ اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو کبھی زندہ نہیں بچے گا پولیس نے اسکے رشتہ داروں اور جان پہچان رکھنے والوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دیں جب وہ پولیس کے ہاتھ نہ لگ سکا تو ایک نہایت اعلیٰ خفیہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ روپوشی کی حالت میں کسی بھی طرح اسے پکڑ کر مار دیا جائے اور ملک امیر محمد خان کو اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر کے پابہ زنجیر کر دیا جائے۔ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے یہ حربہ استعمال کیا گیا کہ اس کی ضعیف ماں سے ایک سادہ کاغذ پر انگوٹھا لگوا لیا گیا اس کاغذ پر بعد میں یہ لکھا گیا کہ ملک محمد خان کو ملک امیر محمد خان نے قتل کر دیا ہے اس حلفیہ بیان کی روشنی میں استغاثہ تیار کر کے عدالت کو دے دیا گیا جب محمد خان کو اس کا علم ہوا کہ ملک امیر محمد خان کی زندگی خطرے میں ہے اور حکومت انہیں اسکے قتل کے کیس میں الجھا کر سزا دینا چاہتی ہے تو اس سے برداشت نہ ہو سکا اس نے 27 جولائی 1967 کو رات کے 9 بجے خفیہ مقام سے مختلف اخبارات اور بی بی سی لندن کو فون کیا اس نے انہیں بتایا کہ کسی نے اسے قتل نہیں کیا وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے روپوش ہے کیونکہ جن پولیس افسران کی نگرانی میں سپیشل پولیس کی گارڈیں تیار کی گئی وہ سب اس کے جانی دشمن ہیں وہ پولیس مقابلہ کی کہانی گھڑ کے اسے ٹھکانے لگا دیں گے اس لئے وہ گرفتاری پیش نہیں کر رہا اگر غیر جانبدارانہ پولیس مقرر کر دی جائے تو وہ خود بخود گرفتاری پیش کرے گا‘ اس کے بعد سید اکبر شاہ انسپکٹر پولیس کو سپیشل گارڈ دے کر محمد خان کی گرفتاری پر مامور کر دیا گیا یہ ایک مخلص نیک کردار اور اچھا انسان تھا۔ محمد خان نے اپنے آدمی کے ذریعے سید اکبر شاہ سے رابطہ کیا اور اس سے معاہدہ طے کیا کہ اسے جان سے نہ مارا جائے تووہ گرفتاری پیش کر دے گا۔ سپیشل پولیس کے انسپکٹر سید اکبرشاہ نے وعدہ کیا کہ اگر محمد خان اسے گرفتار دے گا تو اپنی جان پر کھیل کر اس کی حفاظت کرے گا۔ چنا نچہ طے پا گیا کہ محمد خان تھانہ لاوا میں واقع ڈھوک شیر آکر اسے گرفتار کر لے ۔ ایک طرف یہ طے پا چکا تھا تو دوسری طرف پنجاب پولیس اسے جان سے مارنے کیلئے ڈھونڈنے میں مصروف تھی۔ پولیس کا خیال تھا کہ محمد خان پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی وادی سون میں چھپا ہوا ہے۔ صرف وادی سون میں ایس ایس پی عبداللہ خان کی نگرانی میں تین ہزار پولیس اہلکار تعینات تھے۔ خود آئی جی پنجاب پولیس قریشی صاحب ہیلی کاپٹر پر اس آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ میڈیا پر محمد خان کی خبروں کی دھوم مچی تھی۔ بی بی سی ، وائس آف امریکہ اور وائس آف جرمنی محمد خان پر خصوصی بلیٹن نشر کررہے تھے۔ ملک میں اخبارات کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوچکا تھا۔ لوگ صبح سویرے سویرے محمد خان کی خبروں کی تلاش میں اخبارات خریدتے۔ محمد خان نے جب یہ صورتحال دیکھی تو انسپکٹر سید اکبرشاہ سے رابطہ کر کے اپنی گرفتاری کی تاریخ موخر کرنے کو کہا محمد خان کو پتہ تھا کہ اسے پولیس نہیں چھوڑے گی۔ اورپھر یوں گیارہ ماہ تک پولیس نے دن رات ایک کر دیا لیکن محمد خان کو گرفتار کرکے مارنے میں ناکام رہی۔ یہ تمام حالات ستمبر 1966ءسے اگست 1967ءتک کے ہیں۔ گیارہ ماہ تک پولیس اورمحمد خان کی آنکھ مچولی ہوتی رہی اور پولیس سے سامنا ہونے کے باوجود ہر مرتبہ محمد خان بچ نکلنے میں کامیاب ہوتا رہا۔ دراصل محمد خان بہروپیے کا روپ دھار چکا تھا۔ جب وہ اپنے علاقے میں ہوتا تو مونچھیں رکھ لیتا جب باہر جاتا تو مونچھیں صاف کرا لیتا۔ عام طور پر شلوار قمیض پہنتا تھا لیکن رو پوشی کے دوران میں پینٹ کورٹ‘ نکٹائی‘ ٹائی اور ہیٹ بھی استعمال کرتا تھا آنکھوں پر مختلف رنگوں کی عینک بھی لگالیتا‘ یعنی کہیں بھی جاتے ہوئے وہ مکمل طور پر اپنا حلیہ بدل لیا کرتا رو پوشی کے دوران 6 ماہ یزمان منڈی میں اس نے ایک اینٹوں کے بھٹے پر پناہ لئے رکھی ایک ماہ ملتان میں ہوٹل کا کمرہ کرایہ پر لے کر رہا تین ماہ میانوالی میں گزارے یہاں اس نے 30 روپے ماہانہ میں ایک مکان کرایہ پر لے رکھا تھا جس کا خاص افراد کو علم تھا‘ اس طرح لیہ میں بھی اپنے قیام کیلئے اس نے ایک جگہ کرایہ پر لے رکھی تھی اور گرفتاری پیش کرنے سے قبل ایک ماہ ادھر ادھر بھاگ دوڑ میں گزرا‘ پولیس نے بہاولپور میں چھاپہ مار کر شاہ نواز آف حاصل پور کو گرفتار کر لیا حالانکہ اس سے اسکی کوئی شناسائی نہیں تھی خانیوال سے اسکے چچا بشیر اور ملک جان بیگ کو پکڑ لیا‘ اس کی تلاشی کے دوران ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا کہ محمد خان کہاں رو پوش ہے پھر ان میں سے بعض افراد پر بے پناہ تشدد کیا گیا اور پولیس نے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا تاکہ اسکا پتہ چلایا جا سکے‘ تھوہا محرم خان کے ڈیرہ پر سو افراد کے مکانوں کو پولیس نے صرف اس لئے آگ لگا دی کہ ان سے محمد خان کے تعلقات تھے لیکن وہ اس کے کسی بھی کام میں شریک نہ تھے پولیس ان کو کہتی کہ محمد خان کو لاکر پیش کر دو بھلا وہ اسے کہاں سے لاکر پیش کرتے اس طرح موضع ڈھرنال میں رہنے والے رشتہ داروں اور عزیزوں کو گرفتار کر کے سخت اذیتیں دی گئیں پولیس نے شک و شبہ میں ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے لیکن محمد خان کا سراغ نہ پا سکے‘ وہ بعض اوقات ان کے بیچ سے گزر جاتا انہیں بعد میں پتہ چلتا کہ محمد خان دھوکہ دے کر نکل گیا ہے ۔ اسی طرح ایک مرتبہ دندہ شاہ بلاول میں پناہ لئے ہوئے تھاکہ پولیس کو اطلاع مل گئی۔ پولیس کیل کانٹے سے لیس دندہ پہنچ گئی۔ جب محمد خان کو پتا چلا کہ پولیس نے جانے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں اس نے گھر سے سفید ٹوپی والا برقعہ لیا عورتوں کے سینڈل لے کر پاؤں میں ڈالی شلوار اور کرتا پہلے ہی پہنا ہوا تھا پاؤں میں جرابیں تھی ایک مرد بوڑھی عورت اور پانچ سالہ بچی کو ساتھ لیا اور بس پر سوار ہونے کیلئے نکل کھڑا ہوا مر د کو اس کا خاوند ظاہر کیا گیا جب کہ بوڑھی عورت اس کی ساس بنی اور لڑکی بیٹی۔ چنانچہ محمد خان عورت کے بھیس میں ٹھمک ٹھمک چلتا پولیس کے بیچ میں سے گزر کر میانوالی کی لاری پر سوار ہو گیا اورصحیح سلامت نکل جانے میں کامیاب رہا۔ جب ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود پولیس محمد خان کوگرفتار کرنے میں ناکام ہوئی تو اکبرشاہ نے صدر ایوب کو رپورٹ دی کہ اگر مجھے اختیارات دیئے جائیں تو میں محمد خان کو گرفتارکرسکتا ہوں۔ صدرایوب خان نے انسپکٹر اکبر شاہ کو اجازت دے دی کہ وہ محمد خان کو گرفتار کرے۔ انسپکٹر اکبر شاہ نے محمد خان تک اپروچ کی اور اسے گرفتاری دینے پر رضا مند کیا ۔ جب اس بات کا علم ایس ایس پی عبداللہ اور ڈی آئی جی بنگش کو ہوا تو انہیں بہت برا لگا۔ انہوں نے اکبر شاہ پر پابندی لگا دی اور اسے نظر بند کر دیا۔ انسپکٹر اکبر کے ساتھیوں کو علم تھا کہ یکم اگست 1967ءکو ڈھوک شیرا داخلی لاوہ پر محمد خان نے دوبارہ گرفتاری دینی ہے تو انہوں نے ایس ایس پی عبداللہ اور ڈی آئی جی بنگش کو بتا دیا اور پولیس ہزاروں سپاہیوں کو لے کر یکم اگست 1967ءکو دن گیارہ بجے ڈھوک شیر پہنچ گئی اور اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں ڈھوک شیر ایسا علاقہ ہے جہاں چھوٹے چھوٹے نالے‘ کھائیاں اور پہاڑیاں ہیں۔ یکم اگست کو محمد خان ڈھرنال نے اکبر شاہ انسپکٹر سے گرفتاری دینے کا وعدہ کررکھا تھا۔۔۔ لیکن موقع پر الگ الگ پولیس ٹیمیں پہنچ گئیں۔۔ ایس ایس پی عبداللہ نے آتے ہی اسے گرفتاری کو کہا وہ اس وقت دھوتی اور بنیان پہنے ہوئے تھا وہ جب سے رو پوش تھا اس کے پاس ہینڈ گرنیڈ‘ تہہ کی جانیوالی رائفل‘ ریوالور اور ڈھیر ساری گولیاں تھی جنہیں وہ ایک صندوق میں بند رکھتا تھا‘ ایس ایس پی عبداللہ نے کہا کہ محمد خان ہاتھ کھڑے کر دو اور خود کو گرفتاری کیلئے پیش کر دو پولیس نے چاروں طرف سے تمہیں گھیر لیا ہے اب تم کسی صورت نہیں بچ سکتے‘ اس نے جواب میں کہا کہ اس وقت بالکل خالی ہاتھ ہوں اکبر شاہ کو بھیجو کہ مجھے گرفتار کر لے یہ سنتے ہی ایس پی عبداللہ نے فائر کھول دیا وہ اس وقت بالکل نہتا تھا پہلی گولی اس کی چھاتی میں لگی اس نے بھاگ کر بیٹھک سے تہہ بند لیا جہاں گولی لگی وہاں باندھا گھنی جھاڑیوں کے درمیان گہری کھائی میں جا چھپا پولیس نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھاتھا اورفائرنگ کر رہی تھی حتیٰ کہ شام کے ساڑھے پانچ بج گئے۔ پولیس اس کے قریب جانے سے خوفزدہ تھی۔ جب پولیس کو پتہ چلا کہ محمد خان کسی صورت گرفتاری نہیں دے گا تو مجبوراً انسپکٹر اکبر شاہ کو بلایا گیا انسپکٹر اکبر شاہ نے تمام اہلکاروں کو افسران سے وعدہ لیا کہ محمد خان کو گولی نہیں ماری جائے گی جب تمام طرف سے تسلی ہوئی تو آگے بڑھ کر گہری کھائیوں میں اتر گیا اور اسے آواز دی محمد خان میں اکبر شاہ ہوں تو محمد خان ڈھرنال نے خود کو اس کے حوالے کر دیا اتنے وقت میں اس کا بہت سا خون ضائع ہو چکا تھا ۔ اسی وقت وائرلیس پر صدر ایوب کو محمد خان کی گرفتاری کی اطلاع دی گئی اور انہیں اس کے زخمی ہونے کا بھی بتایا گیا صدر ایوب نے اس وقت حکم دیا کہ اسے بلاتاخیر ملٹری ہسپتال راولپنڈی منتقل کر دیا جائے چنانچہ رات کے دس بجے کے قریب اسے پنڈی ملٹری ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں اس کا آپریشن ہوا گولی نکالی گئی اور اٹھارہ دن تک وہ یہاں زیر علاج رہا۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری وہاں تعینات تھی۔ محمد خان کی گرفتاری کے بعد میڈیا پر شور مچ گیا۔۔ میڈیا نے اسے بڑے عجیب و غریب القابات دینا شروع کردیئے۔ کسی نے قاتل کہا کسی نے ڈاکو کہا۔ بے سروپا باتیں اور واقعات اس سے منسوب ہونے لگے۔ اس سے وہ وارداتیں بھی منسلک کر دی گئیں جن کا اسے پتہ تک نہیں تھا یکطرفہ میڈیا پر اس کے خلاف پروپیگنڈہ جاری تھا۔۔ ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی اسے شاہی قلعہ لاہور منتقل کر دیا گیا۔ جہاں اے آئی جی کرائم برانچ کے عبدالوکیل خان نے اس سے تفتیش کا آغازکیا۔ چھ ماہ تک اس سے تفتیش ہوتی رہی۔ اسے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر رکھا گیا۔ حکومت کا سارا زور اس بات پر تھا کہ امیر محمد خان صدر ایوب کو محمد خان کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا۔ یہ بات غلط تھی اس بیان کی روشنی میں حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو الجھانا چاہتی تھی انہوں نے اس سے یہ بیان حاصل کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا دفتروں کے دفتر دیکھے گئے کہیں سے بھی محمد خان اور امیر محمد خان کی ملاقات کا ریکارڈ حاصل نہ کیا جاسکا اس نے بھی حالات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے ہر وار اپنی جان پر سہہ لیا لیکن وعدہ معاف گواہ بن کر اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا پولیس نے اس کے ڈیرے کا مال و متاع لوٹ لیا، گھروں کو آگ لگا دی اس کی پانچ مربعہ اراضی بحق سرکار ضبط کر کے نیلام کر دی گئی شاہی قلعہ میں اسے کڑے پہرے میں رکھاگیا‘ 6 ماہ بعد اسے گوجرانوالہ جیل منتقل کر دیا گیا وہاں اسے پھانسی کی کوٹھڑی میں رکھا گیا حالانکہ ابھی اسے کسی مقدمہ میں سزا نہیں ہوئی تھی یہاں بھی اتنے سخت حفاظتی انتظامات تھے کہ پھانسی کی کوٹھڑی کے اوپر دائیں بائیں اور آمنے سامنے مسلح سپاہی تعینات تھے حتیٰ کہ پھانسی کوٹھڑی کے اندر بھی اس کے ہاتھوں کو ہتھکڑیاں لگائی جاتیں پاؤں میں بیڑیاں اور ایک موٹا سنگل ہتھکڑی کے ساتھ باندھ کر پھانسی کوٹھڑی کے لوہے کے دروازے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا کھاناکھانے اور وضو کرنے کیلئے بھی اسکی ہتھکڑیاں نہیں کھولی جاتی تھیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل خود آ کر صرف ایک ہاتھ کی ہتھکڑی کھولتا اسی حالت میں وضو کر کے نماز پڑھتا اور کھانا کھاتا تھا‘ جیل میں قتل کے 19 اور 5 زخمیوں کے کیس کی سماعت شروع ہوئی اس کیلئے حکومت نے جج مظہرالحق اور سپیشل مجسٹریٹ اعجاز احمد چیمہ پر مشتمل خصوصی پینل تشکیل دیا 8 ماہ تک سماعت جاری رہی بالآخر 12 ستمبر 1968ء کو محمد خان ڈھرنال کو 4 بار سزائے موت اور 149 سال قید مشقت کی سزا سنادی گئی‘ اس نے کم و بیش 12 سال اسی حالت میں پھانسی کوٹھڑی میں گزارے اس مقدمہ میں نہ وکیل کی اجازت تھی اور نہ ہی وہ کسی سے مل سکتا تھا مکمل طور پر اسے قید تنہائی میں رکھا گیا اسے اتنی ذہنی اذیتیں دی گئیں کہ کوئی اور ہوتا تو پاگل ہو گیا ہوتا‘ اس فیصلے کے خلاف اسے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ سیشن کورٹ نے محمد خان کو قتل کے جرم میں چار مرتبہ سزائے موت سنائی۔اس کے بھائی نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی کہ ہمیں اپیل کا حق کیوں نہیں دیا جا رہا۔ ہائی کورٹ نے پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرلی اور محمد خان کو ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق مل گیا لیکن یہاں بھی اسے پیش ہونے سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔ محمد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ اسے تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی پر جرح کرنے کی اجازت دی جاے۔ دودفعہ اس کی درخواست نامنظور کردی گی۔ بالاخر اک ڈویژن بنچ نے جس میں جسٹس مشتاق حسین بھی شامل تھے ، نے اسے ڈی ایس پی پر جرح کرنے کی اجازت دے دی کہ اک آدمی جسے چار مرتبہ سزائے موت سنائی گئی ہو اس کی حسرت کو پورا کیا جائے۔ محمد خان کی تفتیشی افسر پر ہونے والی جرح کو سننے و دیکھنے کے لیے لوگوں کا مجمع عدالت میں جمع ہوگیا۔ محمد خان درمیانے قد کا مضبوط قد کاٹھ کا حامل شخص تھا۔خوبصورت بھاری بھرکم چہرہ، سفیدی بہ مائل گھنی مونچھیں اور ذہین و مسحور کردینے والی آنکھیں۔عدالت میں نہایت ادب و احترام اور خوداعتمادی سے آیا، اور نہایت اطمینان سے تفتیشی ڈی ایس پی پر جرح کرنے لگا۔کہ تفتیشی افسر کو مجھ سے ذاتی انا ہے اور جرح میں ثابت کردیاکہ تفتیشی ڈی ایس پی نے عدالت کو ساری من گھڑت کہانی سنائی ہے ۔ بہر حال محمد خان عدالت سے سلام کے بعد اجازت لینے کے بعد یہ کہتا ہوا نکلا کہ میری تقدیر میں جو لکھا ہے وہ ضرور دیکھوں گا لیکن مجھے اطمینان ہے کہ عدالت نے مجھے سنا۔ اس جرح کے بعد ہائی کورٹ نے محمد خان کو دو سزائے موت کی سزا سے بری کردیا جبکہ دو میں سزا برقرار رکھی۔ ۔۔ اسے موت کی سزا میں پھانسی کی تاریخ مقرر ہوئی لیکن وہ اپنی تقدیر سے لڑ کر آزاد ہوا ۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ اسے 8 جنوری1976ءکو تختہ دارپر لٹکا دیاجائے گا۔ اس کے چھوٹے بھائی فتح شیر نے 6 جنوری کو ہائی کورٹ میں اپیل کردی۔ وہ اس وقت اٹک جیل میں تھا اس مرتبہ اس کے بچنے کے کوئی امکانات نہیں تھے۔ صبح چار بجے اسے تختہ دار پر لٹکانے کے تمام انتظامات مکمل تھے۔ اسے پتہ تھا کہ صبح اسے پھانسی دے دی جائےگی۔ لیکن اس کا دل مطمئن تھا سارا دن دوسرے قیدی اس کے پاس آتے رہے اور الوداعی ملاقات کرتے رہے۔ وہ بے خوف و خطر پھانسی سیل میں بیٹھا رہا معمول کے مطابق اس نے روٹی کھائی‘ چائے پی اور ملنے والوں سے گپیں ہانکتا رہا حتیٰ کہ رات کو گہری نیند سویا جیل حکام کو مصیبت پڑی ہوئی تھی وہ پھانسی گھر میں خصوصی انتظامات کرنے میں لگے ہوئے تھے اور جیل کے باہر بھی غیر معمولی انتظامات تھے‘ پھانسی دینے والے جلاد کو بھی بلا لیا گیا تھا محمد خان نے معمول کے مطابق عشاءکی نماز ادا کی اور اطمینان کی نیند سوگیا۔ رات کے گیارہ بجے کے بعد پھانسی پانے سے صرف 5 گھنٹے قبل ہائی کورٹ کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم مل گیا اسے جگا کر اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اٹھا شکرانے کے نوافل ادا کئے اور پھر گہری نیند سوگیا۔ 6 جنوری 1976ءکو اس کے بھائی نے ہائی کورٹ میں جو اپیل دائر کی تھی وہ منظور ہو گئی اور اس کی سزا پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ اس کا کیس دوبارہ ہائی کورٹ میں سنا گیا اور 1978ءمیں اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا ۔ محمد خان 22 برس کی سزا کاٹنے کے بعد بالآخر 1989ءمیں بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدارتی آڈیننس کے تحت 60 سال سے زائد عمر قیدیوں کی سزا کی معافی کے تحت آزاد ہوگیا۔ رہائی کے وقت اس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میری تمام رقابتیں، رنجشیں اور دشمنیاں ختم ہو چکی ہیں۔ رہا ہو کر ملک و قوم کی خدمت کروں گا۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ انسانیت دکھاﺅں گا۔ محمد خان بہت اچھا مقرر بھی تھا وہ رہائی کے بعد بینظیر بھٹو کی موجودگی میں جلسوں سے خطاب بھی کرتا تھا۔ بالآخر تلہ گنگ کی تاریخ کا یہ طلسماتی کردار 29 ستمبر 1995 کو طبعی موت مرا۔ اسے آبائی گاﺅں ڈھوک مصائب تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال میں دفن کیا گیا۔ آخری بات: اور یوں ایک بہادری اور دلیری کی داستان کا خاتمہ ہوگیا۔۔۔ محمد خان ڈھرنال اور ہاشم خان دونوں انتہائی دلیر اوربہادر جوان تھے۔۔۔ تلہ گنگ پہلے ضلع اٹک کا حصہ ہوا کرتا تھا اور ہمارے علاقے میں پیر آف مکھڈ کی سیاسی اجارہ داری تھی۔۔۔ پاکستان بننے کے بعد تلہ گنگ کی ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹیں ہمیشہ پیر آف مکھڈ جیتا کرتے تھے۔۔۔۔ اور یہ دونوں جوان پیر آف مکھڈ کے سیاسی نظریے کے مخالف تھے۔۔۔۔ انہیں صرف اور صرف پیر آف مکھڈ کی سیاسی مخالفت کی بنا پر عبرت کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔۔ محمد خان ڈھرنال نے اپنی زندگی میں نہ تو کبھی ڈاکہ مارا نہ ڈاکے کا کوئی کیس اس کے خلاف درج تھا۔۔۔ مفروری کے دوران اور بعد ازاں جب اس نے عدالتیں لگانا شروع کیں تو غریب لوگ اس کے ہمنوا بن گئے۔۔۔ اور وہ غریبوں کا حقیقی ساتھی اور مسیحا تھا جبکہ ظالموں کے خلاف ہمیشہ برسر پیکار رہا۔۔۔ محمد خان ڈھرنال نے ابھی جوانی میں قدم ہی رکھا تھا کہ اسے مختلف مقدمات میں الجھا دیا گیا۔۔۔ اپنی ساری زندگی وہ انصاف کی تلاش میں رہا۔۔۔ زندگی کا زیادہ وقت مفروری اور جیل میں گزارا۔۔۔ انتہائی مضبوط اعصاب کا مالک محمد خان ڈھرنال نہ تو ڈاکو تھا اور نہ ہی ظالم و جابر تھا۔۔۔۔ وہ غریب لوگوں کا ایک حقیقی مسیحا تھا۔۔۔ اور یہی سچ ہے۔

No comments:

Post a Comment